مولانا ابوالحسنات 1896ء میں ریاست الور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ سید دیدار علی شاہ کے فرزند اکبر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز پانچ سال کی عمر میں مفتی زین الدین کے درس سے حفظ قرآن سے کیا۔ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ مرزا احمد بیگ سے اردو و فارسی کی مروجہ کتب کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ قاری قادر بخش الوری کی زیر نگرانی قرأت و تجوید میں مہارت حاصل کی۔ 1908ء میں آپ حفظ قرآن‘ اردو‘ فارسی انشا پردازی اور قرأت و تجوید میں خاصی دسترس حاصل کر چکے تو درس نظامیہ کے باقاعدہ طالبعلم بنے۔ صرف و نحو اور دیگر فنی کتب دینیہ کا مطالعہ اپنے والد مکرم سے کیا۔مولانا ابوالحسنات نے پندرہ سال کی عمر میں تفسیر بیضاوی‘ جلالین‘ کتب احادیث‘ منطق و اصول‘ فقہ اور عربی ادب کی کتب پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ منتہی کتب کا مطالعہ حضرت مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی اور حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی سے کیا اور اسناد فضیلت حاصل کیں۔ علم طب آپ نے نواب حامی الدین احمد خاں مراد آبادی سے سیکھا اور تکمیل قرأت کیلئے رئیس القراء مولانا عین القضاء سے سند حاصل کی۔ آپ علوم دینیہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ الور کی مسجد شہید کر دی گئی۔ اس واقعہ نے الور میں رنج و اضطراب کی لہر دوڑا دی۔ جواں سال ابو الحسنات کو مسجد کی ناموس نے پکارا اور وہ ملکی سیاست میں کود پڑے۔ وہ مسجد کی تعمیر نو اور بحالی کیلئے مصروف عمل ہو گئے اور اپنے زور خطابت سے لوگوں کے سینوں میں عزم نو پیدا کر دیا۔ اس پر آپ کی گرفتاری بھی عمل میں آئی لیکن حکومت وقت مسجد کو سرکاری خرچ پر ازسر نو تعمیر کروانے پر مجبور ہو گئی۔ 1920ء میں آپ الور کو چھوڑ کر آگرہ میں قیام پذیر ہوئے اور ایک مطب شروع کیا۔ مطب گلاب خانہ آگرہ میں تھا جو تھوڑے ہی عرصے میں خدمت خلق کا ادارہ بن گیا۔ 1922ء میں آپ کے والد سید دیدار علی شاہ آگرہ سے لاہور پہنچے اور مسجد وزیر خان کے خطیب مقرر ہوئے تو مولانا ابوالحسنات ان دنوں ایک نغز گو قاری‘ شعلہ بیان خطیب اور ماہر طبیب کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ والد مکرم کے استعفا کے بعد آپ مسجد وزیر خان کے خطیب اور مفتی مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں دہلی دروازے کے اندر ایک ویران مسجد کی تعمیرو توسیع اور دارالعلوم کے قیام گاہ کامنصوبہ بنایا گیا جس میں آپ نے اپنے والد مکرم اور برادر محترم مولانا ابوالبرکات کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر اور دارالعلوم حزب الاحناف کی تشکیل میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ دارالعلوم حزب الاحناف عظیم دینی ادارہ تھا جو نصف صدی تک علوم و فنون کا مرکز رہا۔ یہاں سے بڑے بڑے علماء مفتی‘ مقرر‘ ادیب اور مناظر نکلے اور دنیائے علم و فضل پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔مولانا ابوالحسنات نے برصغیر کی ہر سیاسی و دینی تحریک میں اپنا کردار ادا کیا۔ کشمیر چلو کی مہم‘ مسجد شہید گنج کی تحریک‘ خاکسار تحریک‘ احرار کشمکش‘ مجلس اتحاد‘ شہادت غازی علم الدین‘ مولانا ظفر علی خان کا دم مست قلندر دھر رگڑا‘ تحریک آزادی ہند اور قیام پاکستان کی تحریکوں میں بھرپور انداز سے حصہ لیا اور ہمیشہ حق کی آواز پر لبیک کہا۔نظریہ پاکستان کی تائید و حمایت کیلئے وہ لاہور کے پہلے عالم دین تھے جو بنارس سنی کانفرنس میں شریک ہوئے اور تاریخی قرارداد پاس کرا کے قائداعظمؒ کو یقین دلایا کہ برصغیر کی عظیم اکثریت مطالبہ پاکستان میں آپؒ کے ساتھ ہے۔ قائداعظمؒ نے آپ کی کوششوں کو سراہا اور ایک خط میں آپ کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بڑی تن دہی اور لگن سے کام کیا۔1945ء میں آپ پہلی بار حج کیلئے روانہ ہوئے۔ دیار حبیبﷺمیں آپ نے عربی زبان میں اتنی فصیح و بلیغ تقاریر کیں کہ دنیائے اسلام سے آئے ہوئے تمام علماء نے آپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ حج کے موقع پر آپ قصیدہ بردہ شریف عربی میں اس قدر خوش الحانی سے پڑھتے کہ سامعین پر رقت طاری ہو جاتی۔ حج سے واپسی پر آپ نے قصیدہ بردہ شریف کی اردو شرح کی جسے ’’طیب الوردہ علی قصیدہ البردہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔مارچ 1948ء میں پاکستان بھر کے مذہبی علماء کی ملتان میں عظیم کانفرنس بلائی گئی جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے سنی علماء نے ’’جمعیت علمائے پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ کو بالاتفاق پہلا صدر منتخب کیا گیا اور آپ تاحیات صدر رہے۔قیام پاکستان کے فوراً بعد مولانا ابوالحسنات نے صدر جمعیت علمائے پاکستان کی حیثیت سے جہاد کشمیر کا اعلان کیا اور غازیان کشمیر کی اعانت کیلئے ملک میں تحریک چلائی۔ عوام نے دل کھول کر کشمیر فنڈ جمع کرنے میں حصہ لیا اور مولانا ابوالحسنات کئی بار محاذ کشمیر پر گئے جہاں مجاہدین کے حوصلے بڑھائے اور میدان جنگ میں پہنچ کر فوجیوں کے کیمپوں میں مجاہدانہ روح پھونکنے والی تقاریر کیں اور سامان جنگ و دیگر ضروریات جمع کر کے پہنچائیں۔1952ء میں تحریک ختم نبوت میں آپ نے مرکزی رہنما کے طور پر حصہ لیا۔ اس تحریک میں تمام مکتب فکر کے علماء نے ابوالحسنات کو اپنا قائد منتخب کیا۔ مولانا ابوالحسنات نے قلمی تبلیغ کو منظم پیمانے پر رواج دیا اور اسلامی موضوعات پر مختلف کتابیں لکھیں۔ آپ کی شائع شدہ تصانیف درج ذیل ہیں:1- تفسیر الحسنات (پہلے دو حصے دس پارے)2- اوراق غم3- صبح نور4- طیب الوردہ علی قصیدہ البردہ5- مسدس حافظ الوری6- مخمس حافظ7- دیوان حافظ (اردو)8- ترجمہ کشف المحجوبیہ عظیم زعیم
وفات
2شعبان المعظم 1380ھ بمطابق 20جنوری 1961ء اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی آخری آرام گاہ مزار حضرت داتا گنج بخشؒ کے احاطہ میں ہے۔
Leave a Reply