امیر ملت پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ

مشہور عاشقِ رسول بُزرگ، امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی مُحدِّث علی پوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1257ھ بمطابق1841ء کو علی پور سیّداں (ضلع  نارووال، پنجاب، پاکستان)میں  ہوئی
سید جماعت علی شاہمحدث علی پوری امیر ملت کے نام سے شہرت رکھتے ہیں
 ولادت
سید جماعت علی شاہ 1834ءمیں علی پورسیداںضلع سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔
(ایک روایت 4/صفر 1320ھ بمطابق13 مئی 1902ءہے
نسب
امیر ملت کے والد کا نام حضرت پیر سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف باللہ اور ولی کامل تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔آپ کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سےحضرت علی المرتضیٰ تک پہنچتا ہے اور آپ کا شجرہ نسب ایک سو اٹھارہ واسطوں سےحضرت آدم تک پہنچتا ہے۔
تعلیم و تربیت
امیر ملت نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ آپ کا تعلق مسلک اہلسنت و جماعت سے تھا علوم دینیہ مولانا غلام قادر بھیروی، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولانا قاری عبد الرحمن محدث پانی پتی اور مولانا احمد علی محدث سہارنپوری سے حاصل کیے۔ سندحدیث علما پاک و ہند کے علاوہ علماء عرب سے بھی حاصل کی۔ ایک بار آپ نے بطورِ تحدیثِ نعمت فرمایا کہ مجھے 10 ہزار احادیث مع اسناد کے یاد ہیں۔
علم باطن
علوم ظاہری کے بعد آپ فیوض باطنی کی طرف متوجہ ہوئے تو امام کاملین قطب زماں بابا جی فقیر محمد چوراہی کےدستِ حق پرست پرسلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہو کر اسی وقت خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔ اس پر مریدین نے اعتراض کیا تو باوا جی نے فرمایا کہ جماعت علی تو چراغ بھی ساتھ لایا تھا، تیل بتی اور دیا سلائی بھی اس کے پاس موجود تھی، میں نے تو صرف اس کو روشن کیا ہے۔
دینی خدمات
امیر ملت نے پچاس سے زیادہ حج کیے۔ سینکڑوں مسجدیں بنوائیں اور بے شمار دینی مدارس قائم کیے۔ سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔شہید گنج کی تحریک کے دنوں میں آپ نے ہندوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور برہمنوں کے پراپیگنڈے کا سدباب کرنے کے لیے مبلغین کی ایک جماعت تیار کی جس نے قریہ قریہ اور شہر بہ شہر گھوم کرتبلیغ اسلام کی۔1935ءمیں مسجد شہید گنج کے سلسلے میں راولپنڈی شہر میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا، جس میں  پیرصاحب کو امیر ملت کا لقب دیا گیا۔ تحریک پاکستان کے لیے آپ کی خدمات بے مثال ہیں۔آل انڈیا سنی کانفرنس کے سرپرست تھے۔ 1885ء میں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی اور1901ءمیں انجمن خدام الصوفیہ کی بنیاد رکھی ۔
علامہ اقبال اور امیر ملت
علامہ اقبال کو امیر ملت سے گہری عقیدت تھی۔ ایک بار امیر ملت کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہو رہا تھا۔  جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ علامہ اقبال ذرا دیر میں آئے اور امیر ملت کے قدموں میں بیٹھ کر کہا: ”اولیاء اللہ کے قدموں میں جگہ پانا بڑے فخر کی بات ہے۔“ یہ سن کر امیر ملت نے فرمایا: ”جس کے قدموں میں اقبال“ آ جائے اس کے فخر کا کیا کہنا۔“
علامہ اقبال کے آخری ایام میں ایک محفل کے دوران میں امیر ملت نے کہا: ”اقبال! آپ کا ایک شعر ہمیں بے حد پسند ہے۔“ پھر یہ شعر پڑھا:
؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
علامہ اقبال کی خوشی دیدنی تھی چنانچہ آپ نے کہا: ”ولی اللہ کی زبان سے ادا ہونے والا میرا یہ شعر میری نجات کے لیے کافی ہے۔“
عاشق مدینہ
عشقِ مدینہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ زبردست عاشقِ مدینہ تھے،مدینے کی ہر شے سے محبّت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدینۂ منورہ  میں تھے کہ اتفاقاً آپ کےکسی مُرید نے مدینۂ منورہ کے ایک کتّے کو (مٹی کا)ڈھیلا مارا جس کی وجہ سے وہ کتّا چیخے لگا،جب آپ کو پتا چلا توآپ بے چین ہوگئے اور اپنے مُریدوں کوحکم دیا کہ فوراً اُس کتّے کو آپ کے پاس لائیں ، جب وہ کتّا لایا گیا تو آپ اُٹھے اور ر وتے ہوئے اُس سے  کہنے لگے: اے دیارِ حبیب کے رہنے والے! لِلّٰہ میرے مُرید کی اِس لغزش کو مُعاف کردے۔ پھر بُھنا ہوا گوشت اور دودھ منگوایا اور اُس کتّے کو  کھلایا، پلایا۔ 
وفات
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال 26 ذوالقعدۃ الحرام 1370ھ بمطابق 30اگست 1951ء کو ہوا۔ آپ کا مزار علی پور سیّداں (ضلع  نارووال، پنجاب، پاکستان) میں مرجعِ خلائق ہے