تحریک آزادی کے رہنما،مجاہدِ ملت:مولانا عبدالحامد بدایو نی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا عبدالحامد بدایوانی نے مولانا عبدالقادر بدایونی، مولانا محب احمد، مولانا مفتی محمد ابراہیم، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا واحد حسین اور مولانا عبدالسلام فلسفی سے تعلیم حاصل کی، پھر الہٰیات کی تکمیل اور قرات کے شوق میں دو سال تک مدرسہ الہٰیہ کانپور میں مقیم رہے اور وہاں سے بدایوں آکر مدرسہ شمس العلوم کے نائب مہتمم مقرر ہوئے۔ تقریر، خطابت اور وعظ گوئی آپ کے خاندان کا ہمیشہ طرۂ امتیاز رہا، چنانچہ مدرسہ شمس العلوم کے سالانہ جلسوں میں آپ کی تقاریر خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی تھیں۔ مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ نے 1914ء میں تحریک خلافت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور ملکی سیاست میں باقاعدہ عملی حصہ لینا شروع کر دیا۔برصغیر میں انگریزوں کے داخلے اور قبضے کے وقت مولانا بدایونی کے ایک محترم بزرگ مولانا فیض احمد بدایونی ؒ نے علامہ فضل حق خیرآبادی شہید کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا تحریک شروع کی اور فتویٰ جاری کر دیا۔ تحریک خلافت کے زمانے میں مولانا عبدالباری فرنگ محلی نے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو پہلی بار لکھنو سے مولانا عبدالمقتدر بدایونی کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ دونوں بھائی بدایوں تشریف لائے اور آستانہ عالیہ قادریہ کے ان کمروں میں ٹھہرائے گئے جہاں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور دیگر مشائخ قیام فرمایا کرتے تھے۔
مولانا عبدالمقتدر نے مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا عبادلحامد بدایونی کو حکم دیا کہ علی برادران کی خاطر تواضع میں کمی نہ کی جائے۔ اس کے بعد اپنے اہل خاندان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔۔۔علی برادران اسلام کے سچے اور مخلص مجاہدہیں جو انگریزوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ مَیں اپنے خاندان کو عموماً اور مولانا حامد میاں اور مولانا ماجد میاں کو خصوصاً حکم دیتا ہوں کہ یہ دونوں انگریزوں کے خلاف تحریک میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ چنانچہ بدایونی برادران نے اپنے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق ہندوستان کے ایک ایک گوشے میں پہنچ کر تحریک خلافت کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ مولانا بدایونی ؒ آل انڈیا خلافت کانفرنس کے رکن اور ڈسٹرکٹ خلافت کمیٹی بدایوں کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مخالفت میں مسلمانان ہند کی حمایت کرتے ہوئے عظیم الشان کانفرنسوں میں شرکت کی اور اس تحریک میں بھی مولانا حسرت موہانی ،مولانا آزاد سبحانی اور مولانا عبدالماجد بدایونی ؒ کے ساتھ کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ تحریک خلافت کے بعد آغا خان کی صدارت میں مسلم کانفرنس کی بنیاد پڑی۔ مولانا بدایونی اس کانفرنس کے صف اول کے قائدین میں شامل تھے۔ اس کے بعد لندن میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی معرکتہ الارا تقریر مولانا محمدعلی جوہر کی تھی جو یادگار سمجھی جاتی ہے۔ اس تقریر کو مولانا بدایونی نے خلافت کمیٹی بدایوں کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کرایا۔(جاری ہے)
ئیس الاحرار مولانا محمد علی ؒ کے انتقال کے بعد قائداعظم نے مولانا شوکت علی اور نواب اسماعیل خان سے مشورے کے بعد دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو مدعو کرنے کی تجویز پیش کی۔ مولانا بدایونی نے جمعیت العلمائے یو پی کے قائد کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ علامہ بدایونی یوپی۔ سی پی بہار۔اڑیسہ، بنگال، آسام، ممبئی، کراچی، سندھ، بلوچستان ، پنجاب اور سرحد کے دورافتادہ مقامات پر قائداعظمؒ کی ہدایت پر مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے سرگرم عمل رہے۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں خان برادران کے مقابلے میں نمایاں کامیابی پر آپ کو فاتح سرحد کا خطاب دیا گیا۔مولانا عبدالحامد بدایونی مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ لکھنوء 1937ء سے لے کر 1947ء تک اور قیام پاکستان کی تحریک میں سراپا مصروف رہے۔ مولانا بدایونی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ مسلم لیگ کے سٹیج سے مولانا کی تقریروں میں ہمیشہ یہ پہلو نمایاں رہتا کہ ہم ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، جہاں کتاب و سنت کے مطابق حکومت قائم کی جائے اور ایک اسلامی و فلاحی معاشرہ قائم ہو۔قائداعظمؒ اور لیاقت علی خانؒ نے ایک وفد سعودی عرب روانہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ حجاج کرام اور دنیائے عرب کو پاکستان اور مسلم لیگ کے موقف سے روشناس کرایا جائے اور حاجیوں کا ٹیکس ختم کرانے کے سلسلے میں جدوجہد کی جا سکے۔ اس وفد میں مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی، مولانا عبدالحامد بدایونی اور سیدنا طاہر سیف الدین کے نمائندے بھی شریک تھے۔ اس وفد نے سلطان ابنِ سعود سے کامیاب مذاکرات کئے۔ سلطان ابن سعود نے وفد کے نقطہ ء نگاہ کو سننے کے بعد تسلیم کر لیا کہ حجاج پر ٹیکس لگانا ناجائز ہے۔ یہ اس وفد کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مصر، عراق، شام اور انڈونیشیا کے مسلمان مسلم لیگ اور پاکستان کے موقف سے متعارف ہوگئے اور سلطان ابن سعود نے 400 روپے سے زیادہ کا حج ٹیکس بھی ختم کر دیا۔آپ نے 1940ء میں اقبال پارک لاہور کے اجلاس میں شرکت اور قرارداد پاکستان کے حق میں قائداعظمؒ کی زیر صدارت تاریخی تقریر فرمائی۔ قیام پاکستان کی تحریک کو تیز تر کرنے کے لئے 1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس (بنارس) منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس قیام پاکستان کے سلسلے میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرنے کے لئے اکابر علمائے اہل سنت کی جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، علامہ بدایونی ؒ اس کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
1945ء میں لیاقت علی خان نے (جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے) مولانا بدایونی کو حیدرآباد دکن بھیجا،تاکہ وہ کسی طرح نظام دکن میر عثمان علی خان اور قائداعظمؒ کی ملاقات کے لئے راہ ہموار کریں، کیونکہ ان دونوں کے اختلافات ملت اسلامیہ کی جدوجہد پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ نظام دکن مولانا بدایونی ؒ کی علمیت اور خطابت کے بڑے مداح تھے، اس لئے مولانا کی نظام دکن سے تاریخی بحث ہوئی۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد جب مولانا وہاں سے رخصت ہوئے تو نظام دکن قائداعظمؒ سے ملاقات کے لئے راضی ہو چکے تھے۔ 30 اگست 1941ء کو لدھیانہ میں ’’پاکستان‘‘ کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی صدارت مولانا بدایونی نے کی۔ اس موقع پر مولانا نے قیام پاکستان کے حق میں مدلل خطبہ دیا، جو بعد میں نظامی پریس بدایونی سے کتابی شکل میں شائع ہو کر مسلم لیگ کی تمام شاخوں کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔
1946ء میں کوئٹہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں سردار غلام محمد ترین اور قاضی عیسیٰ مرحوم کے علاوہ مولانا بدایونی نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کی صدارت نواب زادہ لیاقت علی خان نے کی۔ مولانا بدایونی نے اپنی زندگی قومی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی، وہ اپنے خاندان اور آرام و آسائش سے بے پروا ہو کر ایک عظیم مجاہد کی طرح ایثار و قربانی کو اپنا شعار سمجھتے تھے۔وہ دنوں نہیں، بلکہ مہینوں اہل خانہ سے دور رہ کر مسلم لیگ کے لئے سرگرم عمل رہے۔ مولانا مرحوم عید کی تقریبات بھی اپنے گھر پر نہیں منا سکتے تھے، کیونکہ انہیں صوبہ بنگال کے مسلمانوں کی فرمائش پر ابو الکلام آزاد کی جگہ عیدگاہ کلکتہ میں نماز عیدالفطر پڑھانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد قائداعظمؒ کی دعوت پر مولانا بدایونی آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی آئے ،پھر قائدین کے اصرار پر یہیں کے ہو رہے۔ وہ ملی استحکام اور اتحاد عالم اسلامی جیسے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے۔ مولانا بدایونی جس روز سے پاکستان آئے، اسی روز سے انہوں نے مہاجرین کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیا۔ کراچی کے ڈپٹی کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا نے مہاجرین کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی، جس کا صدر مولانا بدایونی کو مقرر کیا گیا۔
نسب
عبد الحامد قادری بدایونی بن حکیم عبد القیوم قادری بن حکیم مرید جیلانی بن محی الدین قادری عثمانی بن شاہ فضل رسول بدایونی مصنف سیف اللہ المسلول یہ عبد الماجد بدایونی کے بھائی ہیں
ولادت
تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما شاہ محمد عبد الحامد قادری بد ایونی 1318ھ/1900ءء میں دہلی میں اپنے ننھیال کے ہاں پیدا ہوئے محمد ذو الفقار حق( 1318ھ) تاریخی نام تجویز ہوا [2]ابھی آپ کی عمر بیس دن ہی کی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا ۔
تعلیم و تربیت
عبد الحامد بد ایونی اور ان کے بڑے بھائی عبد الماجد بد ایونی کی تعلیم و تربیت کا تمام تر انتظام ان کی والدہ ماجد ہ ( سیدی بہاؤ الدین دہلوی کی ہمشیرہ ) نے کیا۔ ابتدا اپنے آبائی مدرسہ، مدرسہ قادریہ میں تعلیم حاصل کی، آخری دو سال الٰہیات کی تکمیل اور فن قرأ ت کی تحصیل کے لیے مدرسئہ الٰہیہ، کانپور میں رہے۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے مرشد بر حق مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی کے علاوہ مولانا محب احمد قادری، مولانا حافظ بخش بد ایونی، مولانا قدری بخش بد ایونی مولانا مفتی محمد ابراہیم، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا واحد حسین اور مولانا عبد السلام فلسفی کے نام ملتے ہیں ۔
تحریک پاکستان
23مارچ 1940ء کو منٹو پارک، لاہور کے تاریخی اجلاس میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی تو عبد الحامد بد ایونی مسلم لیگ کے ان زعماء میں شامل تھے جنھوں نے قرارداد کی تائید میں تقریر کی 30 اگست 1941 ؁ء کو لدھیانہ میں آپ کی صدارت میں پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی، اس کا نفرنس میں آپ نے پاکستان کے حق میں بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو بعد میں نظامی پریس، بد ایوں سے چھپ کر ملک بھر میں تقسیم ہوا۔ 1945ء میں قائد اعظم اور میر عثمان علی خاں فرمانروائے دکن کے باہمی اختلافات نازک صورت اختیار کر گئے تو قائد ملت خان لیاقت علی خان نے مولاناعبدالحامد بد ایونی کو منتخب کیا تاکہ اختلافات ختم کر انے کے لیے دونوں راہنماؤں کی ملاقات کا راستہ ہموار کریں، والئی دکن، مولانا بد ایونی کی بڑی قدر د منزلت کرتے تھے اور انھیں دینی جلسوں میں تقریر کے لیے مد عو کیا کرتے تھے مولانا فرنر واء دکن سے ملاقات کی اور طویل گفتگو کے بعد انھیں قائد اعظم سے ملاقات کرنے پر آمادہ کیا قیام پاکستان کے بعد آپ آل انڈیا مسلم یگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو علما پاکستان کے اصرار پر مستقل طور پر یہیں قیام پزیر ہو گئے 
جمیعت العلمائے پاکستان
جمعیت العلماء، پاکستان کے قیام اور استحکام کے لیے ابتدا ہی سے آپ نے اپنی کوششیں وقف کر رکھی تھیں، علامہ ابو الحسنات قادری کے وصال کے بعد جمعیت کے مرکزی صدر بنے اور اپنی شبانہ روز محنت سے جمعیت کو چار چاند لگا دیے، مولانا ان علما میں شامل تھے جنھوں نے 22 نکات پر مشتمل دستوری خاکہ مرتب کیا تھا، 1953ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو اس میں آپ نے کھل کر حصہ لیا اور انتہائی علالت کے با وجود فر وری 1953ء میں اسلامی مشارقی کونسل کے رکن نامزد ہوئے، اس ضمن میں انھوں نے کونسل کو اہم سفارشات پیش کیں، 1965ء میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو آپ نے علما اہل سنت کی ایک جماعت کے ساتھ ملک بھر کا دورہ کیا اور تین لاکھ روپے کے کپڑے اور دیگر ضروری سازد سامان مہاجرین کشمیر میں تقسیم کیا ۔
تعلیمات اسلام
عبد الحامد بد ایونی نے قدیم اور جدیدی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا کی اہم زبانوں کی تعلیم کے لیے کئی لاکھ روپے صرف کر کے منگھو پیر روڈ، کراچی میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ کے نام سے عظیم درس گاہ قائم کی، آپ کی اپیل پر صدر مملکت اور اسلامی مملاک کے سر براہوں نے دل کھول کر امداد کی، یہ ادارہ آج بھی علوم دینیہ کی خدمت میں مصروف ہے۔ آپ چین، روس، مصر، ترکی، تیونس، نائجیریا، کویت، عرا، ایران اور حجاز مقدس گئے مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو واضح کیا۔ آپ نے بائیس مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل کی
تصنیفات
آپ نے قابل قدر تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑ ا، چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
  • فلسفہ عبادت اسلامی،تصحیح العقائد،نظام عمل،کتاب و سنت غیروں کی نظر میں،اسلام کا زراعتی نظام،اسلام کامعاشی نظام،مشرقی کا ماضی و حال،انتخابات کے ضروری پہلو۔الجواب المشکور (عربی)،اسلامک پیرئرز (انگریزی)،حرمت سود،مشیر الحجاج،ہندو حکمرانی کا ہولناک تجربہ(1939)
وفات
15 جمادی الاولیٰ، 1390ھ /20 جولائی1970ء کو شاہ محمد عبد الحامد بد ایونی قادری کا جناح ہسپتال، کراچی میں انتقال ہوا۔