علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ ایک تحریک کا نام ہے۔آپ ملت اسلامیہ کا اثاثہ ہیں،آپ کی شخصیت کے کئی حوالے ہیں،آپ پیر طریقت بھی ہیں،سیاست دان بھی،عوامی راہنما اور مذہبی پیشوا بھی،آپ کی دینی علمی،قومی اور ملی خدمات کا احاطہ کرنا چنداں آساں نہیں۔آپ کی تبلیغی خدمات سات سمندر پارتک پہنچی ہوئی ہیں،پاکستان اور بیرون پاکستان، دنیا بھر میں آپ نے اسلام کے پرچم کو بلند کیا۔
نام و نسب
علامہ شاہ احمد نورانی نے 18رمضان المبارک1344ھ31مارچ1926ءکومیرٹھ ہندوستان میں مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں آنکھ کھولی آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے اسی نسبت سے آپ کو صدیقی کہتے ہیں۔آپ کے اجداد افغانستان کے شمال میں واقع ایشیاء کے ایک قدیم ملک دریائے امو کے اس پار (ماور النہر) تاتارہ یاتوران کے شہر خجند سے ہندوستان آئے تھے،علامہ عبدالحکیم جوش میرٹھی جو ممتاز شاعر،نامور عالم دین اور میرٹھ کی شاہی مسجد کے خطیب بھی تھے علامہ شاہ احمد نورانی کے دادا حضور تھے جبکہ آپ کے والد مولانا عبدالعلیم صدیقی ہیں جنہیں سفیر اسلام اور قائداعظم محمد علی جناح کے قابل بھروسہ ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل رہاہے۔
تعلیم وتربیت
علامہ شاہ احمد نورانی نے1930ءمیں اپنے والد گرامی مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی سے چار سال دس دن کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا قرآن مجید فرقان حمیدآٹھ سال کی عمرمیں حفظ کیا آپ نے ابتدائی تعلیم ایسے اسکول میں حاصل کی جہاں ذریعہ تعلیم عربی زبان تھی نیشنل عربک کالج میرٹھ سے ڈگریاں حاصل کیں درسِ نظامی کی کتب متداولہ مدرسہ اسلامیہ قومیہ میرٹھ میں استاذ العلماء حضرت مولانا غلام جیلانی میرٹھی سے پڑھیں۔آپ کو دنیا کی تیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھاآپ بیک وقت مستند عالم دین،حافظ قرآن،خوش الحان قاری عالمی شہرت یافتہ مبلغ،بلند پائیہ مقررعظیم اسلامی مفکر،سیاسی لیڈر تھے ذاتی طور پر نہایت نرم مزاج،خوش گفتاراور پیکر وانکسار واقع ہوئے تھے۔
آپ کی دستار بندی کے موقع پر آپ کے استاد محترم علامہ غلام جیلانی میرٹھی کے علاوہ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی،شاہ عبدالعلیم صدیقی،شہزادہ اعلیٰ حضرت شاہ مصطفےٰ رضا خان،مفتی اعظم ہند تشریف فرما تھے۔مولانا نورانی فراغت تعلیم کے بعد ہی سے اپنے والد کی طرح تبلیغ اوردینی سیاست میں سرگرم ہوگئے اس زمانے میں تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی چنانچہ آپ نے میرٹھ میں نوجوانوں کی ایک تنظیم نیشنل گارڈز کے نام سے بنائی جو علاقے میں ہندوؤں سے مقابلہ کرنے مسلم لیگ اور سنی کانفرنس کے جلسوں کا انتظام سنبھالنے پر مامور تھی۔
بیعت و خلافت اور زیارت حرمین شریفین
مولاناشاہ احمد نورانی کو اپنے والد بزرگوار سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل ہے اور آپ نے پاکستان و بیرون پاکستان اپنی وسیع تبلیغی مساعی و مسلسل دینی جدوجہد اور شریعت و طریقت کی خدمات سرانجام دے کر اپنے والد ماجد کی نیابت و جانشینی کا حق ادا کیاہے آپ چودہ مرتبہ حج کعبہ و زیادت روضہ مقدسہ کا شرف حاصل کر چکے تھے اور جہاں تک حج کے علاوہ عمرہ کی ادائیگی و مدینہ منورہ کی حاضری کا تعلق ہے اس کی تعداد اس سے زیادہ ہے اور بار بار اس سعادت سے مشرف ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مدینہ منورہ سے روحانی قلبی تعلق کے علاوہ آپ کا رشتہ بھی مدینہ منورہ میں ہوا ہے اور آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت مخدوم اہلسنت شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ محمد ضیاء الدین مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندارجمند حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہے۔
تحریری میدان میں کاوشیں:علامہ شاہ احمد نورانی نے تحریک ختم نبوت میں فعال کردار ادا کرنے کے علاوہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ بھی دین کی خدمت انجام دیں۔آپ نے دو ضخیم کتابیں عیسائیت اورآمریت کے رد میں تحریر فرمائیں۔(۱) دی سیل آف دی پرافٹ(مہر نبوت)(۲) جیس کرائسٹ دی لائٹ آف قرآن (یسوع مسیح قرآن کی روشنی میں)
تبلیغی خدمات:مولانا شاہ احمد نورانی نے اسلام کے آفاقی پیغام کودنیابھر میں پھیلانے کیلئے تبلیغی دورے کئے لاکھوں کافروں کو حلقہ بگوش اسلام کیاآپ کی تبلیغی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو کئی کتابیں تصنیف کی جاسکتی ہیں مگر اختصار کے ساتھ چند اہم امورپیش کئے جارہے ہیں۔
1953ء سے1964ء تک گیارہ سال مولانانورانی ورلڈ مسلم علماء آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل رہے جس کے صدر مفتی اعظم فلسطین تھے،مکہ مکرمہ دارارقم میں ورلڈ اسلامک مشن کی داغ بیل ڈالی12اپریل 1974ء کومولاناشاہ احمد نورانی کی زیر صدارت بریڈ فورڈ (برطانیہ)کے سینٹ جارجزہال میں ایک عظیم الشان عالمی کانفرنس ہوئی جس میں مختلف ممالک کے پچاس علماء شریک ہوئے اس کانفرنس میں مولانا شاہ احمد نورانی کو ورلڈ اسلامک مشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔اس موقع پر مولانا شاہ احمد نورانی نے 24ملکوں میں مشن کی شاخوں کے قیام کیلئے کنوینئرمقرر کئے۔جن میں پاکستان،بھارت،سری لنکا،انڈونیشیاتنزانیہ،پرتکال،صومالیہ،جنوبی افریقہ،سینیگال،نائیجریا،مصر، شام،عرق، افغانستان، مغربی جرمنی، فرانس، ہالینڈ،انگلینڈ،امریکہ،سرینام (ڈچ گیانا)،ارجنٹائن،سعودی عرب اور ٹرینی ڈاڈشامل ہیں۔آپ نے ورلڈ اسلامک مشن کو یورپ اور امریکہ میں منظم کرنے کا فریضہ انجام دیااور چیئرمین ورلڈ اسلامک مشن کی حیثیت سے تمام براعظموں کے دورے کئے اور ورلڈ اسلامک مشن کی تنظیمیں قائم کیں۔
مولانا نورانی کی سرپرستی میں کئی دیگرادارے بھی دنیا کے مختلف ممالک میں کام کررہے ہیں جنکے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
(ا)حلقہ قادریہ علیمیہ اشاعت اسلام (ماریشس)(۲) علیمیہ اسلامک مشن کالج(ماریشس) (۳)علیمیہ دارلعلوم(ماریشس)(۴)ورلڈ اسلامک مشن (ماریشس)(۵)حلقہ قادریہ علیمیہ اشاعت اسلام سیلون (سری لنکا)(۶)ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن (گیانا)(۷)مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ،جارج ٹاؤن(امریکہ)(۸)اسلامک مشنریز گلڈ (ساوتھ امریکہ)(۹)آل ملایا مسلم مشنری سوسائٹی (ملائشیا)(۱۰)حنفی مسلم سرکل،پریسٹن(برطانیہ) (۱۱)دارالعلوم جامعہ مدینہ الاسلام،ڈین ہاگ(ہالینڈ)(۱۲)دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی،ضلع بستی یوپی (انڈیا)(۱۳) ورلڈ اسلامک مشن (پاکستان)(۱۴) بابا فرید الدین گنج شکر ویلفیئرایجوکیشن سوسائٹی(پاکستان)(۱۵)ورلڈ تبلیغی کالج گلشن اقبال کراچی(پاکستان)۔
سیاسی خدمات
مولانا شاہ احمد نورانی نے پاکستان میں قیام کے دوران1953 ء تا2003ء پورے50سال ملک کی سیاست میں بھرپور حصہ لیااس نصف صدی کی ملکی سیاست میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں جس پر کئی مقالے لکھے جاسکتے ہیں لیکن یہاں اختصار کے ساتھ چند اہم بنیادی کارناموں کا ذکر کیا جارہا ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی نے1953 ء میں ملکی سیاست کی ابتداء جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے کی اور تادم واپسیں اسی پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے،1953ء میں تحریک ختم نبوت اور1956ء میں تدوین دستور کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔1968ء میں باقاعدہ سیاست میں آئے اور جے یو پی کی ازسر نو تنظیم میں بنیادی کردار ادا کیا۔اس وقت جمعیت علماء پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہی تھی اور اس کے درج ذیل گروپ کام کررہے تھے (۱) صاحبزادہ فیض الحسن گروپ(۲) علامہ عبدالحامد بدایونی گروپ،(۳) علامہ عبدالغفور ہزاروی گروپ،(۴) علامہ محمود رضوی گروپ،(۵)مولانا خلیل احمد قادری گروپ،(۶) مولانا سید محموداحمد شاہ گجراتی گروپ،ہر گروپ اپنے نہج پر کام کررہا تھا، 1970ء میں غزالی زماں علامہ سیداحمدسعید شاہ کاظمی اورمفتی اعظم پاکستان ابوالبرکات محمد احمد قادری کے ساتھ مل کر جے یو پی کے تمام دھڑوں کوخواجہ قمرالدین سیالوی کی قیادت میں منظم کیااورآپ جمعیت علماء پاکستان کے نائب صدر اول منتخب ہوئے۔ 1970ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔جے یو پی کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلہ میں وزیر اعظم کا الیکشن لڑا 15اپریل1972ء کو پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں فتنہ مرزائیت کے خلاف کھل کر اور تفصیلی تقریر فرمائی اور مسلمان کی تعریف دستور میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 19دسمبر1972 ء کو صدر جمعیت علماء پاکستان خواجہ قمر الدین سیالوی کے استعفیٰ کے بعد قائم مقام صدرجے یو پی مقرر ہوئے 1973ء میں سینٹ کےرکن منتخب ہوئے27مئی1974ء کوخانیوال کنونشن میں جےیو پی کےصدرمنتخب ہوئے۔ اس دوران دو دفعہ استعفیٰ دیا لیکن جے یو پی کی شوریٰ و عاملہ نے استعفیٰ منظورنہیں کیا اس طرح آپ 11ستمبر2003ء تک منصب صدارت پرفائزرہے۔30جون1974ء کوقومی اسمبلی میں قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قرار دینے کی قرار پیش کی جو7ستمبر1974ء کو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔1977ء میں نو دینی جماعتوں کا اتحاد عمل میں آیا جو قومی اتحاد کے نام سے مشہور ہواجس میں قائد اہلسنت نے بھرپور کردار ادا کیا۔1977ء میں دوسری مرتبہ حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 23مارچ 1995ء کوملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا اور آپ اس کے صدر منتخب ہوئے۔جولائی 2001ء میں چھ دینی جماعتوں کا سیاسی اتحادمتحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا اور آپ کو چھ ماہ کیلئے صدر منتخب کیا گیاچھ ماہ بعد بھی متحدہ مجلس عمل کے قائدین نے آپ ہی کی صدارت پر اعتماد کا اظہار کیا۔دینی جماعتوں نے 19مارچ2002 ء کومتحد مجلس عمل کے نام سے قائم کئے گئے اتحاد کو باقاعدہ سیاسی اتحاد میں تبدیل کردیا2اپریل2002ءکو متحدہ مجلس عمل کے منشور کی منظوری دے دی گئی جس میں کہا گیا کہ مجلس عمل برسر اقتدار آکر ملک میں نظام مصطفی ﷺ نافذ کرے گی۔
ایم ایم اےنے 23جولائی2002ء سے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا10اکتوبر2002ء کے عام انتخابات میں مولانا شاہ احمد نورانی کی ولولہ انگیز قیادت میں ایم ایم اے نےبھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔4 فروری2003ء کوسینٹ کے انتخابات ہوئے اور مولانا شاہ احمد نورانی سندھ سے سینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ڈٹ کر باوردی صدرمشرف کا مقابلہ کیا۔
وفات
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نوراللہ مرقدہ نے 17شوال 1434ھ بمطابق 11دسمبر2003ءکووصال فرمایا۔آپ کی تدفین کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے احاطے میں 12دسمبر2003ء بروز جمعۃ المبارک کو ان کی والدہ کے قدموں میں ہوئی۔اناللہ واناا لیہ راجعون۔
Leave a Reply