مجاہدملت پاسبان ختم نبوت مولاناعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ

 مجاہد ملت مولانا محمد عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ عظیم شخصیت ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیزقیادت میں ان کے شانہ بشانہ کام کیا اور قائد اعظم کے بعد قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نوراللہ مرقدہ کی قیادت میں جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کیلئے اپنی آخری عمر تک جدوجہد کی۔
نام ونسب:مولانا محمدعبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر1915 کو ضلع میانوالی کے گاؤں ”اٹک پنیالہ“میں ذوالفقار خان نیازی کے گھر پیدا ہوئے۔
آباؤ اجداد:مولانا عبدالستار خان نیازی نے خالصتاََ دینی ماحول میں آنکھ کھولی ان کے گھر کی خواتین تک تہجد گزار تھیں آپ کے والد گرامی ذوالفقار خان پاکباز اور تہجد گزار بزرگ تھے،لوگ ان کی باکبازی کی قسمیں کھایا کرتے تھے ان کے نا نا صوفی محمد خان بہت نیک بزرگ تھے۔
تعلیم: مولانا عبدالستار خان نیازی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے نزدیک ایک پہاڑی موڑ پر واقع گاؤں کنڈل کے گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی۔آپ اسکول سے واپسی پر ہی مولوی صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے اس طرح صرف تین چار ماہ میں قرآن پاک پڑھ لیا۔آپ دوسری جماعت کے طالب علم تھے جب آپ نے ماہ رمضان کے پہلی مرتبہ روزے رکھے،جماعت چہارم میں اسکالرشپ حاصل کرنے کے بعدگورنمنٹ ہائی اسکول عیسیٰ خیل سے1933 میں میٹرک کیا۔جماعت ہشتم کے مقابلہ مضمون نویسی میں ضلع بھر میں اول آئے مولانا عبدالستار خان نیازی نے چھوٹی عمر ہی سے اسلامی کتب اور تاریخ کا مطالعہ شروع کر دیا تھاآپ اپنے اسکول کی لائبریری کے انچارج بھی تھے۔اسی سال لاہور چلے گئے اور حکیم الامت کے قائم کردہ ”اشاعت اسلام کالج“میں داخل ہوئے۔کالج میں فقہ،حدیث،تفسیر،تاریخ اسلام وغیر کے مضامین پڑھائے جاتے تھے 1935 میں کالج میں شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا 1936 میں آپ نے امتحان میں ماہر تبلیغ کی حیثیت سے ٹاپ کیا۔آپ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس کالج سے ملنے والی سند پر مفکر اسلام علامہ اقبال کے دستخط موجود تھے مزید تعلیم کے لئے اسلامیہ کالج لاہور کے طالب بنے یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہن کی سیاسی آبیاری بھی ہوئی 1938 میں بی اے اور 1940 میں ایم اے کیا پھر اسی کالج میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔
ملی خدمات:مولانا عبدالستار خان نیازی ایک شخصیت نہیں ایک ادارہ،ایک مشن کانام ہے اور ملک میں اسلامی نظام کے قیام کیلئے ان کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل اور جامع تاریخ ہے۔آپ نے مسلمانوں میں ملی تشخص کو اجاگر کرنے اور ملی بیداری و شعور پیدا کرنے کیلئے 1935 میں میانوالی میں ”انجمن اصلاح قوم“کے نام سے ایک تنظیم قائم کی،کچھ ہی عرصہ بعد اسی تنظیم کا نام بدل کر ”انجمن اصلاح المسلمین“رکھا،جب 1936 میں اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے تو چند ملت کے غمگسار ساتھیوں میاں محمد شفیع (م،ش)جسٹس انوار الحق،ابراھیم علی چشتی،حمید نظامی اور عبدالسلام خورشید کے ہمراہ علامہ محمد اقبال سے ملے اس نشست میں مسلم طلباء کی تنظیم سازی کے موضوع پر گفتگو ہوئی اس سلسلے میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے اپنی طرف سے کچھ تجاویز پیش کیں جن کی آپ کے رفقاء نے مصلحت کی بنا پر مخالفت کی لیکن کرسی پر بیٹھے چادر اوڑھے علامہ اقبال نے فوراََاپنادایاں ہاتھ چادر سے نکال کرہوا میں بلند کرتے ہوئے فرمایا”میں مسٹر نیازی کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں“چانچہ علامہ اقبال کے مشورے سے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی گئی اگلے سال مولانا عبدالستار خان نیازی کو اس کا صدر نامزد کیا گیا۔
آپ نے 1939 میں فیڈریشن کی طرف سے ایک پمفلٹ ”خلافت پاکستان“کے عنوان سے شائع کروایافیڈریشن نے اس کی ایک کاپی قائد اعظم محمد علی جناح کو بھیجی جب اکتوبر1939 میں فیڈریشن کے وفد نے مولانا عبدالستار نیازی کی قیادت میں قائد اعظم سے ملاقات کی تو قائد اعظم نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا،آپ کی اسکیم بہت گرم ہے،مولانا نیازی نے برجستہ جواب دیا،”کیونکہ یہ کھولتے ہوئے دل سے نکلی ہے“ یکم مارچ1941 میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اسلامیہ کالج لاہور میں قائد اعظم کی زیر صدارت پاکستان کانفرنس منعقد کی اس موقع پر مولانا عبدالستار خان نیازی نے زبر دست تقریر کی قائداعظم جو ہمہ تن گوش تھے قریب بیٹھے ایک مسلم لیگی سے فرمانے لگے یہ تقریر سننے کے بعد مجھے کامل یقین ہو چلا ہے کہ”اگر مسٹر نیازی جیسے میرے ساتھ رہے تو ہم پاکستان حاصل کرلیں گے“انشاء اللہ
مولانا نیازی 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر MNA منتخب ہوئے عام انتخابات میں مسلم لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود گورنر نے پنجاب میں یونیلسٹ پارٹی،کانگریس اور اقلیت کے نمائندوں کو ساتھ ملا کر فرنگی حکومت کے سہارے وزارت قائم کرلی مسلم لیگ کے اراکین کی طرف سے خضر وزارت پر شدید دباؤ تھاخضر مخالف تحریک میں مولانا عبدالستار خان نیازی پیش پیش تھے چنانچہ خضرحیات نے آپ کو ساتھ ملانے کیلئے جاگیرکا لالچ دینا چاہا تو فرمایا تم چند ایکٹر زمین کی بات کرتے ہو”ہم چھ صوبوں کا پاکستان مانگتے ہیں“۔
وزارت کی پیشکش کی تو فرمایا”میرے لئے اللہ ہی کافی ہے“1947 میں سول نافرمانی کی تحریک میں جیل گئے آخر کار 14اگست1947 کو پاکستان بن گیا۔قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی مسلم لیگ انتشار کا شکار ہوگئی جب 1950 ؁ء کو آل پاکستان عوامی لیگ نبی تومولانا عبدالستار خان نیازی کواس کا جنرل سیکریٹری،شیخ مجیب الرحمن جوائنٹ سیکریٹری جبکہ حسین شہید سہروردی صدر بنے لیکن1951 کے عام انتخابات میں آپ نے صوبائی اسمبلی کی نشست پرآزاد حیثیت سے حصہ لیا اورجس میں مسلم لیگ کے نامزد امیدوار کو شکست دی اس صوبائی اسمبلی میں آپ نے پردہ بل پیش کیا۔مارچ 1953 کو حکومت وقت نے تحریک ختم نبوت میں گرفتار کر لیااس کی پاداش میں پھانسی کی سزا ہوئی بعد میں یہ سزا حکومت نے خود ہی منسوخ کردی اس طرح غازی تحریک ختم نبوت اور فاتح تختہ دار کا لقب پایا،جبکہ اسی نسبت سے ممتاز عالم دین علامہ احمد سعید کاظمی (ملتان)نے آپ کو”مجاہد ملت“کے خطاب سے سرفراز کیا۔
1954 کے انتخابات میں مولانا نیازی نے ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا1970 میں جمعیت علماء پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔پھر ہمیشہ کیلئے جمعیت کے ساتھ لازم وملزوم ہوگئے آپ کی حق گوئی اور بیباکی کی بدولت ہر حکومت نے دھاندلی سے اسمبلی میں آنے سے روکاجیسا کہ 1964,1970,1977 کے انتخابات سے ثابت ہے۔ خصوصاََ آپ کے حلقہ کے نتائج کو شرمناک طریقے سے بدلہ گیا۔1990اور1998 کے انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے پھر مشرف حکومت آنے تک سینیٹر کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے سیاست میں قدم رکھنے سے پیرانہ سالی تک آپ کا منشور نفاذ اسلام رہا ہے آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حکومت پاکستان نے آپ کو مثالی جذبہ اور نمایاں خدمات کے اعتراف میں ”تحریک پاکستان گولڈ میڈل“دیا علاوہ ازیں جب ہندوستان نے دور مار پرتھوی نامی میزائل کا تجربہ کیا تو آپ نے حکومت وقت پر زور دے کرپارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا پرتھوی نامی میزائل کے مقابلہ میں ”غور ی میزائل بناؤ“ چنانچہ ممتازایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے آپ کے مجوزہ نام کو حقیقت کا روپ دے دیا۔
مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا نورانی کی جوڑی ایک زمانے تک اہلسنت مکتبہ فکر کیلئے تقویت کا باعث رہی لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اس سیاسی جوڑی میں دراڑ پڑ گئی اور جمعیت دو حصوں یعنی نورانی گروپ اورنیازی گروپ میں بٹ گئی۔مولانا عبدالستار خان نیازی نے نیازی گروپ کی تشکیل میں صاحبزادہ فضل کریم کو اپنا مرکزی نائب صدر انجنیئرسلیم اللہ کو سیکریٹری جنرل اور اپنے بہنوئی سرور خان نیازی کو مالیات کے شعبہ کا نگراں ن مقرر کیا۔لیکن صاحبزادہ فضل کریم صوبائی وزارت کو پیارے ہوگئے اور صوبائی وزیربننے کے ساتھ ساتھ جمعیت کے ایک نئے گروپ (فضل کریم)کے بانی صدر بن گئے۔نیازی گروپ کے سیکریٹری جنرل انجینئر سلیم اللہ خان جنرل مشرف کے دور میں مولانا نیازی کو مفارقت کا داغ دے کر اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے فیضیاب ہوئے اور نفاذ شریعت کے نام سے جمعیت کا نیا گروپ سامنے لے آئے۔بعد ازاں صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی کوششوں سے مولانا عبدالستار خان نیازی اور علامہ شاہ احمد نورانی میں پھراتحاد ہو گیا اور دونوں جمعیتیں ایک ہو گئیں مولانا عبدالستار خان نیازی جمعیت کے صدربنے اور مولانا شاہ احمد نوارانی سپریم کونسل کے چیئرمین بنے۔مولانا عبدالستار خان نیازی آخری عمر میں اپنے سیاسی حلیف میاں نواز شریف سے بہت مایوس تھے۔کیونکہ مولانا نیازی کی زیر سربراہی قائم ہونے والی اتحاد بین المسلمین کمیٹی کی مذہبی ہم آہنگی کے لئے تیارکی گئی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے سے میاں صاحب نے احتراز برتااور سود کے بارے میں بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی رٹ دائر کردی۔
وصال:
مجاہد ملت مولانا محمدعبدالستار خان نیازی 86 برس کی عمر میں بدھ 2 مئی 2001 کی صبح ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں انتقال کرگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون ان کی نماز جنازہ انکے پیر خانے کے سجادہ نشین پیر آف بھور شریف مولانا خواجہ محمد صدیق نے پڑھائی تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔مرحوم کی وصیت کے مطابق آپ کومجاہد ملت کمپلیکس روکھڑی موڑ میں سپردخاک کیا گیا۔