مولانا حامد علی خان نقشبندی، ملتان کے بے تاج بادشاہ اور قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
ولادت
مولانا حامد علی خان نقشبندی بن مولانا شیدا علی خان 1324ھ/ 1906ء میں رام پور، یوپی (ہندوستان) کے ایک علمی و روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کمسن تھے کہ والد کا سایہ سر اُٹھ گیا۔ دادا مہدی علی خان نے آپ کی پرورش کی۔
تعلیم و تر بیت
آپ نے علومِ اسلامیہ کی تمام کتب متداولہ (اوّل سے آخر تک) مدرسہ عالیہ رام پور میں پڑھ کر 1930ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ حدیث کے امتحان میں آپ نے دار العلوم میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ مولانا حامد علی خان نے مولانا عبد الحق خیرآبادی مولانا معز اللہ خان، مولانا نذیرالدین، مولانا وجیہ الدین اور مولانا حمایت اللہ سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔ فراغت کے بعد آپ کچھ مدت اپنے دولت کدہ پر علومِ اسلامیہ کی تدریس فرماتے رہے۔ 1932ء میں مدرسہ اسلامیہ خیر المعاد رہتک (ہندوستان) کے صدرمدرس مقرر ہوئے اور اسی دوران مسجد گشتیاں رہتک میں فرائضِ خطابت بھی انجام دیتے رہے۔ جب برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیمِ ہند (اور قیامِ پاکستان) کا مطالبہ کیا، تو آپ نے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ سے بھرپور تعاون کیا اور رہتک میں تحریکِ پاکستان کی سرپرستی فرمائی۔
ملتان آمد
1959ء میں آپ رہتک (ہندوستان) سے ملتان منتقل ہو گئے اور مدرسہ اسلامیہ خیر المعاد کے نام سے ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی۔ تحریکِ ختم نبوت 1974ء میں آپ ملتان کے احتجاجی جلوسوں اور جلسوں کی قیادت کرتے ہوئے قائدانہ خطاب فرماتے رہے۔1977ء میں آپ نے ملتان ہی سے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔[1]
وفات
مولانا حامد علی خان 7جنوری 1980ء کو رحلت فرمائی اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں مزا رہے ۔[2]
ملتان کے بے تاج بادشاہ مولانا حامد علی خان نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
رضائے الٰہی اور حب مصطفیؐ کے امتحان میں عزیمت اور استقامت کے راستے پر چلنے والے اولیاء اللہ کی کہکشاں میں قلندر زماں‘ پیر طریقت مولانا حامد علی خاںؒ کا اسم گرامی روشن ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا حامد علی خان نقشبندی، ملتان کے بے تاج بادشاہ اور قومی اسمبلی کے رکن رہے۔
حیات مستعار میں نہ جانے کتنے ہی طوفان اٹھتے ہیں مگر آپ کی جبین استقلال پہ بل نہیں آتا۔ ان کی سیرت‘ مادیت‘ ظلمت اور تاریکیوں کے دور میں ایک آفتاب تاباں کی مانند ہے۔ آپ دعوت حق کے ایک غیرت مند رہنما تھے۔ آپ کا علم و فضل‘ کردار و افکار‘ دعوت و تحریک‘ عزیمت اور استقامت حق سب کچھ قابل تقلید ہے۔ آپ حضرت مجدد الف ثانیؒ ‘ امام فضل حق خیر آبادیؒ مفتی کفایت علی شہیدؒ اور مفتی عنایت احمد کاکوریؒ جیسے عظیم عاشقان مصطفیؐ کی فکر کے امین تھے اور قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے ہمنوا تھے۔مولانا حامد علی خاں نے 1906ء میں مہدی علی خاں کے بیٹے شیدا علی خاں کے گھر جنم لیا۔ یہ رام پور کا مشہور علمی گھرانہ تھا۔ حضرت مولانا حامد علی خاں نے صرف 24 سال کی عمر میں دینی تعلیم رام پور میں ہی مدرسہ عالیہ میں حاصل کی۔ آپ نے مولانا فضل الحق‘ مولانا معزاللہ خان اور مولانا وجیح الدین جیسے علمی شخصیتوں سے تعلیم حاصل کی اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہیں علم و فرقان کی مجلسیں برپا اور فیض کے چشمے جاری ہونے لگے۔ 1932 ء میں اپنے استاد حضرت عنایت اللہ خان کے حکم پر حضرت رام پور سے روہتک تشریف لے آئے اور مدرسہ اسلامیہ خیرالمعاد سے منسلک ہو گئے۔1959 ء میں پاکستان تشریف لے آئے۔ آپ کے خلوص ‘ محبت اور تقویٰ نے پورے ملتان کو جلد اپنا گرویدہ بنا لیا۔ آپ نے اس دور میں اپنا لوہا منوایا جب ظلمتوں کا دور دورہ تھا وہاں پر ایک محبتوں کا امین شخص عصا تھامے خراماں خراماں اخوت و مروت اور اخلاق و آداب کی بنجر زمین کی آبیاری میں ناصرف اپنا پسینہ بلکہ خون جگر بھی ڈالنے کا عظم مصمم کیے ہوئے تھا۔ 30 جون 1970 ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاکستان سنی کانفرنس میں شرکت کی۔ 1977ء کے انتخابات میں اہلیان ملتان کے پرزور اصرار پر اس بوریا نشین قلندر نے وادی سیاست میں آبلہ پائی کا فیصلہ کیا۔ سیکولر اور دنیاوی قوتوں سے نبردآزماں ہونے کیلئے تائید ایزدی اور عشق مصطفیؐ کے اسلحہ سے مسلح ہو کر مختلف قوتوں کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ جب خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کا موقع آیا تو آل رسول کے اس سچے غلام نے جو ساری عمر ’’قال اللہ وقال رسول اللہ‘‘ کی صدائیں بلند کرتا رہا کچھ اس سج دھج سے اور جاہ و جلال سے نکلتا ہے کہ جشم فلک ’’جرات عشق مصطفیؐ‘‘ پہ ناز کرتی ہے۔ حضور پیر طریقت نے ساری عمر عشق نبیؐ میں ’’کشتگانِ خنجر تسلیم را‘‘کا درس دیا تھا اوراب سب سے پہلے خود اس کی عملی تصویر بننا چاہتے تھے پھر وہ دن بھی آپہنچا جو ملتان کی تاریخ کا قیمتی اثاثہ‘ ساکنان زمین کا مان اور ملائکہ کیلئے وجہ مسرت تھا۔ ایک طرف قوت کے جابر حاکموں نے اس مصطفائی غلام اور حسینی شیر کیلئے درِ زنداں کھول لیا تھا فوج کی بکتر بند گاڑیاں حکم کی منتظر تھیں اور دوسری طرف غلاموں دیوانوں اور عشاق کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر گریبان کھول کر ٹینکوں کے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں چلاؤ گولیاں! چلاؤ گولیاں!ہمارے حضرت کو گرفتار کرنے سے پہلے تمہیں ہماری لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا مگر کریم کربلا سیدنا حسین ابن حیدرؓ کے غلام اور حضرت مجدد الف ثانی کے پیروکار زندانوں کو آباد کرنے کیلئے چلا آرہا تھا امن و آشتی کے علمبردار کے اشارہ ابرو پرہجوم عاشقاں نے نگاہیں جھکائیں اور لب سی لیے ۔آپؒ نے فرمایا’’اے تحریک نظام مصطفیؐ کے جانثاروں! آپ لوگ بھی کمال کرتے ہیں خود تو تحریک نظام مصطفی کیلئے جانیں دینے کیلئے تیار ہو اور مجھے صرف گرفتار بھی نہیں ہونے دیتے ۔ میں حکم دیتا ہوں کہ ہٹ جاؤ میرے اور فوج کے درمیان حائل نہ ہو۔‘‘ پھر آپ نے آمریت کے محل منہدم کردئیے۔ ظلم و ستم کے بت پاش پاش ہو گئے۔ آمریت و فسطائیت سے نبردآزماں ہو کر جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مومن اپنی نرم گفتگو اور ریشم کی طرح اوصاف کے ساتھ ساتھ حق و باطل کیخلاف مردآہن کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔آپ کے کردار نے معاشرے کو نیا بانکپن دیا اور غلامان محمدؐ کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ آمریت کی دہلیز پر فولادی جسم بن کر اُبھرے اور اہل حق اوراہل علم کے دلوں کے حکمران بن گئے۔دوران اسیری ظلم و ستم اور بے پناہ تشدد ہی اس جہا ن فانی سے انتقال کی وجہ بنا۔ 7 جنوری 1980 ء بروز پیر امت مسلمہ اس دلیر ‘ نڈر اور جری قائد سے محروم ہو گئی۔ مدینتہ الاولیاء ملتان شجرسایہ دار سے محروم ہو گیا ۔8 جنوری 1980 ء کو سہ پہر 3 بجے قاسم باغ میں علامہ احمد سعید کاظمیؒ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ عاشق مصطفیؐ کے جنازے کو عقیدتمند بڑے تزک و احتشام سے لیکر آئے اور آہوں‘ سسکیوں اور آنسوؤں کے سلام کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ کیا۔ قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے نماز جنازہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’آج ہمارے سر سے ایک مربی اور سرپرست کا سایہ اٹھ گیا ہے آپ کی ذات مجمع بحرین اور علم شریعت اور علم طریقت کا مجموعہ تھیں آپ نے نظام مصطفیؐ کی تحریک میں جس طرح جدوجہد کی وہ سب کیلئے قابل تقلید ہے‘‘ تاجدار ملتان مولانا حامد علی خاںؒ ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے جو اپنے حلقۂ ارادت کیلئے پیر طریقت تھے۔ آپ کا مرقد آج بھی علم و ہدایت کا عظیم مرکز اور دانش گاہ تشنگان علوم کی پیاس بجھا رہی ہے۔ اللہ کریم حضرت کی تربت پر بے حساب رحمتیں نازل فرمائیں اور آپ کے خاندان کو عزت و عظمت و جلالت کے ساتھ قائم و دائم رکھے۔ (آمین)
Leave a Reply