پروفیسر سید شاہ فرید الحق رحمۃ اللہ علیہ

مرد حق پروفیسر سید شاہ فریدالحق نے یکم جولائی1933ء کو یو پی بلیا کے قصبہ سکندر پور ہندوستان میں سید شاہ بشیر الحق کے گھر میں آنکھ کھولی آپ کا خانوادہ حسنی سادات ہے اورآپ سیدنا غوث اعظم نوراللہ مرقدہ کے چشم و چراغ اور اپنی اعلیٰ خاندانی روایات کے امین تھے آپ کے گھر کا ماحول مذہبی و زمیندارانہ تھاآپ کے پیرو مرشد سید مصطفی رشیدی ہیں آپ نے ابتدائی تعلیم سے لیکر میٹرک بلیایو پی ہی میں حاصل کی گریجویشن 1956ء میں آگرہ یونیورسٹی سے کیاجبکہ1958ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی کیا تعلیم سے فارغ ہوتے ہی 1958ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کے علاقے لیاقت آباد،سکندرآباد میں ایک جھگی بنا کر سکونت اختیار کی۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے اسلامیہ کالج جوائن کیا اور1958سے 1973ء تک تدریسی سلسلہ جاری رہااسلامیہ کالج کی تدریس کے دوران بہت سے شاگرد ایسے تھے جنہوں نے مستقبل میں بڑا نام کمایا ان میں ایک نام جنگ کے میر شکیل الرحمن کا ہے دوران تدریس ہی1968ء میں شہید ملت لیاقت علی خان کی یاد میں لیاقت نیشنل کالج ملیر کی بنیاد رکھی جو1973ء میں نیشنلائز ہوگیاآپ نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کے ترجمہ قرآن ”کنزالایمان فی ترجمہ القرآن“ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جبکہ آپ نے 10پاروں کا حاشیہ بھی انگریزی زبان میں مکمل کیااس کے علاوہ کئی درسی کتب تحریر کیں سیاسیات پر کئی کتابیں بھی تصنیف کیں جوکہ کراچی یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل ہیں اس کے علاوہ رد”قادیانیت“ میں ایک انگریزی کتاب (Below to Qadyaniyat)تحریر کی۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق کے تین بیٹے اورپانچ بیٹیاں ہیں جو سب کے سب شادی شدہ ہیں بڑے بیٹے سید شاہ شاہد الحق کاروبارکرتے ہیں دوسرے بیٹے شاہ ضیاء المصطفیٰ بینک میں ملازم ہیں اور تیسرے بیٹے شاہ محمد عبدالحق سرسید یونیورسٹی میں برسرروزگار ہیں۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق نے1970ء کے انتخابات میں علامہ شاہ احمد نورانی اور علامہ عبدالمصطفیٰ الازھری کے اصرار پر جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے ملیر کے صوبائی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لیااور تاریخی کامیابی حاصل کی اور یہیں سے باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز ہواآپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ علامہ شاہ احمد نورانی کی رفاقت میں نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہوئے گزاراPNA،نظام مصطفی ﷺ سمیت ملک میں چلنے والی کئی تحریکوں میں حصہ لیاجبکہ ملی یکجہتی کونسل،متحدہ مجلس عمل اور دیگراتحادوں میں انتہائی فعال کردار ادا کیا۔آپ سندھ اسمبلی میں جے یو پی کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف بھی رہے اپنی پارلیمانی زندگی میں بطور اپوزیشن لیڈر سب سے زیادہ قرارداد پیش کرنے کا قومی ریکارڈ قائم کیاجو آج تک موجود ہے اور کراچی سے پروفیسر ایں ڈی خان کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے آپ نگراں وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کی حکومت میں وفاقی وزیرزرعی تحقیق اور صوبائی وزیراوقاف بھی بنے۔آپ جمعیت علماء پاکستان کے سنیئرنائب صدر اور سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے۔آپ قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نوارانی رحمۃ اللہ علیہ کے رفیق خاص تھے قائد اہلسنت کے وصال کے بعد آپ جمعیت علماء پاکستان کے صدر بنے عالمی تبلیغی ادارے ورلڈ اسلامک مشن کے وائس چیئرمین بھی رہے۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق نے قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی اور مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کے ساتھ عالمی دورے بھی کئے پورپ،امریکہ،ساؤتھ افریقہ، نیروبی،ماریشس سمیت دیگر کئی ممالک کے دورہ کر کے وہاں کی حکومتوں اور مقتدر لوگوں کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے حکومتی فیصلے سے آگاہ کیااور دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی 1974ء مین عالمی دورے سے واپسی پر عمرہ کی سعادت حاصل کی روضہ رسول پر حاضری کے بعد قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے کمال مہربانی و شفقت سے اجازت و خلافت سے نوازااور ساتھ ہی حدیث کی سند بھی عطا فرمائی۔
1977ء میں تحریک نظام مصطفی ﷺ میں قائد اہلسنت کے ساتھ ہر اول دستے کے طورپر کام کیا اس دوران تین ماہ تک سکھر جیل میں قیدوقید کی صعبتیں برداشت کیں۔اسی دوران اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان کے اردو ترجمہ قرآن کنزالایمان کا انگریزی ترجمہ شروع کیاجو تقریبا7سال لگاتار محنت کے بعدپایہ تکمیل کو پہنچا۔
پروفیسر سید شاہ فرید الحق نے پیر 30محرم الحرام 1433ھ بمطابق26 دسمبر2011ء کوکراچی میں رحلت فرمائی۔آپ کی نماز جنازہ منگل 27دسمبر2011ء کوبعد نماز ظہر مدنی مسجد گلشن اقبال بلاک15کراچی میں ادا کی گئی اوراسی مسجد میں قائد اہلسنت امام شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کے دیرینہ رفیق سفر حضر ت علامہ محمد حسن حقانی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلومیں سپردخاک کیا گیا۔