علّامہ محمد حسن حقانیؒ یکم دسمبر 1930ء1349ھ کوبھارت کے “ٹانڈہ” ضلع فیض آباد یوپی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی وطن بریلی، تحصیل آنولہ ہے۔ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی۔ 1938ء سے 1939ء میں حفظ مکمل کیا۔ قاری صاحب 1939ء میں اپنے والد کے ساتھ آگرہ آگئے، اور 1942ء میں یہیں سے درس نظامی کا آغاز مدرسہ عالیہ آگرہ سے کیا۔ اکثر کتب کا درس اپنے والد گرامی اور علامہ مفتی فضل الکریم بہاری سے حاصل کی۔ 1950ء میں شادی ہوئی، مگر تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ 1952ء میں میٹرک 1953ء میں مولوی، عالم اور 1954ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ 1954ء میں پاکستان ہجرت فرمائی اور 1957ء تک پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں میں ملازمت کرتے رہے۔ جب آپ کے والدِ گرامی کراچی سے ملتان تدریس کے لیے تشریف لے گئے، تو آپ کو مدرسہ انوار العلوم ملتان میں وہاں کے جلیل القدر علمائے کرام سے اکتسابِ فیض کرنے کا موقع ملا۔ 1960ء میں شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری ؒسے صحاح ستہ کی سند حاصل کی۔
اپنے وقت کے جیّد اور نام وَر علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے فرمایا، جن میں حضور غزالی زماں، علّامہ سیّد احمد سعید کاظمی، والد ماجد مفتی آگرہ مفتی عبدالحفيظ حقانی، شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مفتی امید علی خاں خلیفہ اعلیٰ حضرت، علامہ مفتی مسعود علی قادری۔
سرکار کلاں، حضرت شاہ محمد مختار اشرف الاشرفی الجیلانی کے ہاتھوں مئی1958ء میں ملتان میں بیعت ہوئے اور 1989ء میں آپ کو خلافت سے نوازا گیا۔1959ء میں زمانہ طالب علمی سے ہی دارالعلوم امجدیہ سے وابستہ تھے، کچھ عرصہ علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ کے حکم پر انجمن اسلامیہ لیاقت آباد کراچی میں بطورِ عربی ٹیچر خدمات انجام دیں۔ 1964ء میں قبلہ ازہری کے حکم پر ملازمت چھوڑی اور دوبارہ امجدیہ میں تشریف آوری ہوئی۔ 1964ء سے 1992ء تک دارالعلوم امجدیہ کے عظیم مدرس، ناظمِ اعلیٰ، ناظمِ تعلیمات، نائب مہتمم اور ٹرسٹی رہے۔1992ء میں ہی دارالعلوم امجدیہ کی شاخ کے طور پر ’’جامعہ انوار القرآن” مدنی مسجد گلشن اقبال میں تدریسی انتظامات کیے اوررفتہ رفتہ تمام انتظامات منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے سنبھال لیے۔ آپ 1960ء سے 1966ء تک مکرانی مسجد پیر کالونی میں امام و خطیب رہے۔ تین برس 1966ء سے 1969ء جامع مسجد غوثیہ لیافت آباد 1969ء سے 1986ء جامع مسجد دارالسلام ناظم آباد 1986ءسے1989ء تک دارالعلوم امجدیہ میں خطابت کے فرائض انجام دیے،بعدازاں 1989ءسے تادمِ انتقال جامع مسجد مدنی گلشنِ اقبال میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
واضح رہے کہ آپ نے 1958ء سے ہی سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا، جب کہ 1970ء میں JUP سندھ کے نائب ناظم مقرر ہوئے۔1974ءسے 1976ء JUP سندھ کے جنرل سیکٹری رہے۔ 1978ء میں جماعتِ اہل سنت کے مرکزی نائب صدر مقرر ہوئے۔ علاوہ ازیں تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان میں بھی خدمات انجام دیں۔تنظیم المدارس میں آپ صوبہ سندھ کے مرکزی ناظمِ اعلیٰ ، رکن مرکزی شعبہ امتحانات اور رکن مرکزی عاملہ رہے۔ 1970ء کے انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی صوبہ سندھ جب کہ 1977ء کے عام انتخابات میں نیوکراچی سے اورنگی تک دراز نشست پر بھی اللہ نے کام یابی عطا فرمائی اور رکن قومی اسمبلی مقرر ہوئے۔
آپ استاذ العلماء ، مظہرِ علم و دانش ، صائب الرائے ، عالی ہمّت اور صاحبِ عزیمت شخصیت تھے۔ آپ کی حیات ایک انجمن کی مانند تھی۔ آپ ایک دردمند شخصیت تھے۔ آپ کے دل میں قوم وملّت اور امتِ مسلمہ کا درد تھا، مزاج میں حدت رکھنے کے باوجود تعلقات کی قدر فرماتے، بسا اوقات دل میں پنہاں جذبات آنسوؤں کا روپ دھار لیتے تھے۔ آپ کے پر خلوص اور فصاحت و بلاغت سے لبریز انداز گفتگو سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا ۔آپ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ ماحول پر پوری گرفت رکھتے تھے۔ ہر چیز کی خبر رکھتے اور ہر بات پیش نظر رہتی، بصیرت و فراست کا یہ عالم تھا کہ بعد میں پیش آنے والے حالات کا پہلے اندازہ ہو جاتا اور اس کی قبل از وقت منصوبہ بندی کرلیتے تھے۔ آپ کی مردم شناسی بھی زبردست تھی، پہلی نظر میں ہی انسان کی صلاحیت اور استعدادِ کار اندازہ لگا لیتے تھے۔
قدرت نے آپ کو بھر پور انتظامی صلاحیت سے مالا مال کیا تھا۔ آپ ایک مذہبی عالم ہی نہیں، بلکہ زبر دست منتظم بھی تھے۔ نظم و ضبط کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں سے خوب واقف تھے۔ ساری زندگی خود بھی اس کی پابندی کی اور اپنے ارد گرد ماحول بھی ایسا ہی بنا کر رکھا۔ نظم کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرتے ۔ ہر کام وہ خود بھی نظم و ضبط اور وقت پر انجام دیا کرتے اور دوسروں کو بھی یہی تقلین کیا کرتے، اس معاملے میں سختی فرماتے۔ ہر ایک کو سمجھاتے، سکھاتے اور تربیت دیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو آپ کی خدمت میں کچھ وقت گزار لیتا، وہ کندن بن جاتا تھا۔ آپ کا نظام زندگی ایک مضبوط قلعہ کی مانند تھا جس کو کوئی توڑ نہیں سکتا تھا۔ یہی وجہ کہ آپ کے زیر انتظام ادارے، مساجد اور مراکز نظم و انتظام کا ایک حسین پیکر ہوتے تھے۔ آپ کا حسن انتظام سب کو نظر آتا تھا اور کوئی بھی شخص اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔
مطالعے کا شوق اخیر عمر تک رہا، اس لیے اخبارات و رسائل اور تجزیے، تبصرے سب پڑھتے رہتے تھے، ملکی و بین الاقوامی، سیاسی و مذہبی سرگرمیوں سے گہری دلچسپی تھی۔ استاذ العلماء حضرت حقانیؒ کی زندگی یوں تو متنوع خصوصیات اور گوناگوں کمالات کی مظہر تھی، لیکن جس چیز کو آپ نے سب سے زیادہ اہمیت دی اور جسے اپنی پہچان بنایا ،وہ درس و تدریس کا شعبہ ہے۔ مسند درس کی آپ زینت بنے اور تقریباً نصف صدی پر محیط عرصے ہر طرح کے حالات میں آپ نے اس رشتے کو قائم رکھا اور علم کے پیاسوں کو کبھی محروم نہیں لوٹایا۔
ذوق تدریس کا عالم یہ تھا کہ مدرسہ کے علاوہ گھر پر بھی وقت دے دیا کرتے تھے۔ آپ کو تدریس سے نہ صرف بڑا شغف تھا، بلکہ اس پر نازاں رہتے کہ وہ ایک معلم ہیں، کبھی کبھار فرماتے ’’میں پاک پروردگار سے ایک ہی دعا کرتا ہوں کہ ساری زندگی پڑھایا ہے، اب پڑھاتا ہوا ہی دنیا سے جاؤں۔آپ سے سیکڑوں تشنگانِ علم نے اپنی پیاس بجھائی، جن میں سے چند مشہور ارشد تلامذہ یہ ہیں: مفتی عبدالحلیم ہزاروی علیہ الرحمہ ، شیخ الحدیث علامہ غلام جیلانی الاشرفی ، مفکر اہل سنت علامہ رضوان احمد نقشبندی، فاضلِ نوجواں مفتی محمد اسماعیل حسین نورانی، علامہ صابر حسین نورانی، علامہ لیاقت حسین الاظہری۔
17 جمادی الثانی 1430هـ، مطابق 11جون2009ء بروز جمعرات آپ کا انتقال ہوا ، اور جامع مسجد مدنی گلشن اقبال کراچی کے احاطے میں مدفون ہوئے۔اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات جلیلہ کو اپنی پاک بارگاہ قبول و منظور فرما کر آپ کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)
Leave a Reply